جی-20 اجلاس میں امریکہ کی مخالفت کے باوجود اعلامیہ منظور

خاص طور پر یہ طویل عرصے سے جاری مشرقِ وسطیٰ کے تنازعے کو اس انداز میں پیش کرتا ہے

Editor News

جی-20 کے رہنماؤں نے ہفتے کے روز موسمیاتی بحران اور دیگر عالمی چیلنجز سے متعلق ایک اعلامیہ منظور کر لیا، جس کی امریکہ نے مخالفت کی تھی۔ اس پیش رفت کے بعد وائٹ ہاؤس نے الزام لگایا کہ جنوبی افریقہ نے اس سال اپنی صدارت کو “ہتھیار” بنا کر استعمال کیا ہے۔

یہ اعلامیہ، جو امریکہ کی شمولیت کے بغیر تیار کیا گیا، “دوبارہ مذاکرات کے لیے نہیں کھولا جا سکتا”، جنوبی افریقی صدر سیرل رامافوسا کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا۔ یہ بات پریٹوریا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے درمیان پائے جانے والے تناؤ کو ظاہر کرتی ہے، جس نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا تھا۔

ترجمان وینسنٹ میگ وینیا نے کہا: “پورا سال ہم اس منظوری کی طرف بڑھتے رہے اور گزشتہ ہفتہ خاصا شدید رہا۔”

کچھ گھنٹوں بعد وائٹ ہاؤس نے دعویٰ کیا کہ رامافوسا “جی-20 کی صدارت کی ہموار منتقلی کو سہل بنانے سے انکار کر رہے ہیں”، جبکہ انہوں نے پہلے کہا تھا کہ وہ “خالی کرسی” کو صدارت سونپیں گے۔

وائٹ ہاؤس کی خاتون ترجمان اینا کیلی نے کہا: “اس کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ کی جانب سے مضبوط اور مستقل امریکی مخالفت کے باوجود جی-20 لیڈرز ڈیکلریشن جاری کرنے کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے گروپ کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرنے کے لیے اپنی صدارت کو ہتھیار بنا لیا ہے۔” انہوں نے کہا کہ ٹرمپ آئندہ سال، جب امریکہ جی-20 کی صدارت سنبھالے گا، “گروپ کی ساکھ بحال کرنے” کے خواہاں ہیں۔

جوہانسبرگ میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے میزبان رامافوسا نے قبل ازیں کہا تھا کہ اعلامیہ کے لیے “بھاری اکثریتی اتفاق” موجود ہے۔

تاہم آخری لمحے پر ارجنٹینا جس کے انتہائی دائیں بازو کے صدر خاویر میلی ٹرمپ کے قریبی اتحادی ہیں نے مذاکرات چھوڑ دیے، جبکہ وفود مسودے کی منظوری کے لیے تیار بیٹھے تھے، جنوبی افریقی حکام کے مطابق۔

ارجنٹائن کے وزیر خارجہ پابلو کوئیرنو نے اجلاس میں کہا کہ “اگرچہ ارجنٹینا اس اعلامیہ کی توثیق نہیں کر سکتالیکن وہ جی-20 کی تعاون کی روح سے مکمل طور پر وابستہ ہے۔” رامافوسا نے اس بات کا نوٹس لیا، لیکن اعلامیہ پھر بھی منظور کر لیا۔

کوئیرنو کے مطابق ارجنٹینا کو اس بات پر اعتراض تھا کہ مسودے میں جغرافیائی سیاسی معاملات کو کیسے بیان کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ “خاص طور پر یہ طویل عرصے سے جاری مشرقِ وسطیٰ کے تنازعے کو اس انداز میں پیش کرتا ہے جو اس کی پوری پیچیدگی کا احاطہ نہیں کرتا۔” اعلامیے میں صرف ایک بار اس تنازعے کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ ارکان “مقبوضہ فلسطینی علاقے میں… ایک منصفانہ، جامع اور دیرپا امن” کے لیے کام کریں گے۔

Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *