اقوامِ متحدہ کےسالانہ ماحولیاتی مذاکرات کامقصد کیارہ گیاہے؟

تاریخ میں پہلی بار، COP30 کے اختتامی معاہدے میں یہ تجویز شامل کی جا رہی ہے کہ عالمی ماحولیاتی سفارت کاری ’’مذاکرات سے عملی نفاذ‘‘ کے مرحلے میں منتقل ہو۔

Editor News

بیلیم: برازیل میں ہونے والی COP30 کانفرنس ایک بنیادی سوال کے سائے تلے ہے: کیا سالانہ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی مذاکرات اپنا اصل مقصد پورا کر رہے ہیں؟

گزشتہ 30 برسوں کی عالمی ماحولیاتی بات چیت نے کچھ پیش رفت تو ضرور کی ہے۔جیسے قابلِ تجدید توانائی کا پھیلاؤ اور موسمیاتی فنڈز میں اضافہ لیکن اتنا نہیں کہ موسمیاتی بحران کو مؤثر طور پر روکا جا سکے۔ اخراج بڑھ رہے ہیں، درجہ حرارت مسلسل بلند ہو رہا ہے۔

اسی صورتحال نے COP نظام میں اصلاحات کے مطالبات کو تقویت دی ہے، کیونکہ یہ اجلاس عالمی اہداف طے کرنے اور ان کا جائزہ لینے تو کرتے ہیں، مگر زمینی سطح پر کارروائی تیز کرنے کے لیے کوئی عملی طاقت نہیں رکھتے۔

رائٹرز نے اس حوالے سے 30 سے زائد ماہرین بشمول سفارتکاروں، سابق UN مذاکرات کاروں، وزراء، کارکنوں، سرمایہ کاروں اور ترقیاتی بینکوں کے اعلیٰ حکام کا انٹرویوز میں مؤقف جانا۔

متعدد ماہرین نے کہا کہ UN کا موجودہ نظام اب وہ اہلیّت نہیں رکھتا جو اسے آئندہ دہائی میں درکار ہوگی، اور اسے ایسے ماڈل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے جو وعدوں کو عملی شکل دے سکے۔

ایک یورپی مذاکرات کار نے کہا:’’وقت آگیا ہے کہ ہم بڑے بڑے میلوں جیسے مذاکرات چھوڑ کر، عملدرآمد میں تیزی لانے پر توجہ دیں۔ یہ شاید پرانے طرز کی آخری COP ہو اور نئے دور کا آغاز۔‘‘

تاہم اصلاحات کے حق اور مخالفت میں دونوں جانب اختلاف شدید ہے۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ اس وقت جب امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں ماحولیاتی پالیسیوں پر سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے، تو اصلاحات کا عمل الٹا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

سابق پیرو وزیرِ ماحولیات مینول پلگار وِڈال نے خبردار کیا:’اس نازک وقت میں اصلاحات کا دروازہ کھولنا موسمیاتی انکاری گروہوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‘‘

UN خود بھی تبدیلی کے لیے متحرک ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی ادارے کے سربراہ سائمن اسٹیل نے سابق عالمی رہنماؤں، سفارتکاروں، کاروباری شخصیات اور مقامی نمائندوں پر مشتمل 15 رکنی مشاورتی گروپ تشکیل دیا ہے جو آئندہ چند ہفتوں میں اپنی تجاویز پیش کرے گا۔

اسٹیل کا کہنا ہے کہ اگرچہ COP نے کچھ حقیقی پیش رفت کی ہے—جیسے 2035 تک عالمی اخراج میں 12 فیصد کمی کی پیشگوئی—مگر ’’نئے دور‘‘ میں مزید تیزی اور بہتری ضروری ہے۔

مشاورتی گروپ کے رکن اور ماہرِ موسمیات یوہان راک اسٹروم کے مطابق ’’کوئی بھی آپشن میز سے باہر نہیں‘‘، یہاں تک کہ اکثریتی ووٹ سے فیصلوں کا ماڈل یا سالانہ اجلاس کے طریقہ کار میں تبدیلی بھی زیرِ غور ہے۔

اتفاقِ رائے کی رکاوٹ
سب سے بڑی رکاوٹ تقریباً 200 ممالک کے مکمل اتفاقِ رائے کی شرط ہے، جو اکثر مضبوط فیصلوں کو کمزور بنا دیتی ہے۔اسی وجہ سے 2021 کی COP26 میں “coal phase out” کا فیصلہ بھارت کے اعتراض کے بعد “phase down” میں بدل دیا گیا تھا۔
بعض ممالک اکثریتی ووٹنگ کا نظام لانے یا ہر سال کے بجائے دو سال بعد COP منعقد کرنے جیسے آئیڈیاز پر بات کر رہے ہیں، مگر ہر بڑی تبدیلی کے لیے بھی اتفاقِ رائے درکار ہےجو خود ایک چیلنج ہے۔

بڑھتی بھیڑ اور غیر متعلقہ شرکا کی تنقید:
COP اجلاسوں میں ہر سال ہزاروں مندوبین اور بڑی کارپوریشنوں کی موجودگی ان کانفرنسوں کو ’’ٹریڈ شو‘‘ جیسی شکل دے رہی ہے۔
کچھ ماہرین اس رابطے کو مفید کہتے ہیں، مگر کئی ممالک سائز کم کرنے اور غیر ضروری شرکا کو روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاناما کے مذاکرات کار خوان کارلوس مونتریے نے کہا:’’بہت سے لوگ صرف ایک COP سے دوسری COP تک سیر کرتے رہتے ہیں جبکہ دنیا جل رہی ہے۔‘‘

اقوامِ متحدہ کی اندرونی بے چینی
رائٹرز کے مطابق ایک لیک ہونے والی UN رپورٹ میں یہاں تک تجویز آیا کہ موجودہ ماحولیاتی ادارے کو کسی دوسرے محکمے میں ضم کرنے اور موجودہ شکل میں COP ختم کرنے پر غور کیا جائے—اگرچہ اس تجویز کے نافذ ہونے کا امکان کم ہے۔

برازیل کی اپیل: نئے نہیں، پرانے وعدے پورے کیے جائیں
بطور میزبان، برازیل نے اس سال COP30 اجلاس سے کہا ہے کہ نئی وعدہ سازی کے بجائے پچھلے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے پر توجہ دی جائے۔ برازیل نے ایک UN معاونتی کونسل بنانے کی تجویز بھی دی ہے جو ممالک کی پیش رفت کا جائزہ لے سکے۔

تاریخ میں پہلی بار، COP30 کے اختتامی معاہدے میں یہ تجویز شامل کی جا رہی ہے کہ عالمی ماحولیاتی سفارت کاری ’’مذاکرات سے عملی نفاذ‘‘ کے مرحلے میں منتقل ہو۔

Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *