نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مائیکروفون کی بار بار خرابیوں نے صدر ترکیہ، کینیڈا کے وزیراعظم اور انڈونیشیا کے صدر سمیت کئی رہنماؤں کی تقاریر میں رکاوٹ ڈال دی۔
رپورٹ: عاطف خان
نیویارک، 23 ستمبر – ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق یہ تکنیکی مسائل اس وقت سامنے آئے جب اجلاس میں غزہ میں جاری نسل کشی اور فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے جیسے حساس معاملات زیرِ بحث تھے۔
انڈونیشین صدر پرابووو سبینتو کا مائیک اُس لمحے بند ہوگیا جب وہ غزہ میں امن فوج تعینات کرنے کے منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے۔ چند سیکنڈ بعد آڈیو بحال ہوئی لیکن مترجم کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور یہ تعطل نہایت نازک موقع پر آیا۔
اس سے کچھ دیر پہلے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کو بھی اسی نوعیت کی خرابی کا سامنا ہوا۔ وہ اسرائیل کی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے فلسطین کو فوری طور پر ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے کہ مترجم نے مداخلت کرتے ہوئے کہا: “صدر کی آواز نہیں آرہی، ان کا مائیک بند ہے۔” اگرچہ خرابی فوری درست کردی گئی، لیکن اس لمحے ہال میں الجھن پیدا ہوگئی۔
سب سے نمایاں واقعہ 22 ستمبر کو پیش آیا جب کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے فلسطین کو باضابطہ طور پر ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ان کے بیان پر مندوبین نے تالیاں بجائیں، مگر چند لمحوں بعد ان کا مائیکروفون اچانک بند ہوگیا۔ آڈیو کے اچانک غائب ہونے پر بعض مبصرین نے اس اتفاق پر سوالات اٹھائے۔
یو این ٹیکنیکل اسٹاف کا کہنا ہے کہ یہ سب جنرل اسمبلی ہال کے آلات کی خرابی کی وجہ سے ہوا اور جان بوجھ کر کسی مداخلت کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ تاہم یہ تمام رکاوٹیں ایسے وقت میں سامنے آئیں جب فلسطین کا مسئلہ ایجنڈے پر نمایاں طور پر چھایا ہوا ہے۔
گزشتہ دنوں فرانس، بیلجیم، مالٹا، لکسمبرگ اور کینیڈا سمیت کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے، جبکہ ترکیہ اور انڈونیشیا جیسے ممالک کے رہنما غزہ میں نسل کشی روکنے، انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنانے اور ضرورت پڑنے پر امن فوج بھیجنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔
اگرچہ تقاریر کے دوران مائیک کی خرابیوں نے شور مچایا، لیکن پیغام پھر بھی صاف سنائی دیا۔ ایک مندوب نے مارک کارنی کی تقریر کے بعد کہا:
“چاہے مائیکروفون نے ساتھ نہ بھی دیا ہو، فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان سب نے سن لیا ہے۔”