عاطف خان | 6 نومبر
نیویارک: اناطولیہ، جہاں انسانی تہذیب نے سب سے پہلے مستقل زندگی کی بنیاد رکھی، ایک بار پھر اپنی قدیم روایات سے پردہ اٹھا رہا ہے۔ آثارِ قدیمہ کی حالیہ دریافت نے یہ ثابت کیا ہے کہ روٹی بنانے کا فن ہزاروں سال پہلے اسی خطے میں پروان چڑھا۔
قونیہ کے یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل مقام چاتال ہویوک (Çatalhöyük) میں ماہرین آثار قدیمہ نے تقریباً 8600 سال قبل مسیح کی پرانی خمیر شدہ روٹی دریافت کی، جو ایک ٹوٹے ہوئے تنور کے قریب ملی، اسے دنیا کی سب سے قدیم روٹیوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسکی شہر (Eskisehir) کے کُللوعوبا (Küllüoba) ٹیلے سے 5000 سال پرانی خمیر شدہ پکی ہوئی روٹی ملی ہے جس کے تجزیے سے پتہ چلا کہ اس میں گندم (Emmer Wheat) اور دال کے اجزاء کی موجودگی کے شواہد سامنے آئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ روٹی تقریباً 140 ڈگری سینٹی گریڈ پر پکائی گئی تھی اور تدفین سے قبل زرخیزی کی ایک رسم میں استعمال ہوئی۔ اسی دوران، کارامان کے قدیم شہر توپرکتپے (Topraktepe) سے ساتویں تا آٹھویں عیسوی صدی کے درمیان پانچ جلی ہوئی روٹیوں کے نمونے ملے ہیں جنہیں ابتدائی عیسائی عبادات کی رسومات میں استعمال ہونے والی مقدس روٹیاں سمجھا جا رہا ہے۔ اسکے علاوہ، شانلی عرفہ (Sanliurfa) میں حران کے کھنڈرات سے 800 سال پرانا سانچہ دریافت ہوا ہے جس پر بقلاوہ کی مانند ہیروں کی شکل کا نقش موجود ہے، جو قرونِ وسطیٰ کے دور میں روٹی پکانے کے طریقوں پر نئی روشنی ڈالتا ہے۔
یہ تمام دریافتیں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ اناطولیہ کی روٹی کی ثقافت صدیوں سے قائم ہے اور آج بھی زندہ ہے۔ بحیرہ اسود کے علاقے میں مکئی کی سنہری روٹی سے لے کر مشرقی اناطولیہ کی تندوری روٹی اور مرکزی اناطولیہ کی بزلما (Bazlama) تک، ترکیہ میں روٹی کے ذائقے اور انداز علاقائی تنوع اور طویل روایات کا عکاس ہیں۔ ان میں سب سے مقبول چپٹی روٹی(Pide) ہے، یہ لکڑی کے تندور میں پکنے والی چپٹی روٹی (فلیٹ بریڈ) ہے جو پورے ملک میں مختلف انداز میں تیار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یونیسکو میں شامل لواش (Lavash) اور یُوفکا (Yufka) جیسی روٹیوں کی اجتماعی تیاری آج بھی ترکی کی ثقافتی زندگی کا خوبصورت حصہ ہے۔

